Sunday, April 21, 2024

علامہ اقبال کے مشہور کلام

بچے کی دعا

لب پہ آتی ہے دعا بن نے تمنا  میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا  میری

 

دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا  ہو جائے

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

 

ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت

جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

 

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!

 

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ‘ ضعیفوں سے محبت کرنا

 

مرے اللہ!  برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو ‘ اس رہ پر چلانا مجھ کو


لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ

خودی  کا  سر  نہاں   لَا  اِلٰہَ  اِلَّا  اللہ

خودی   ہے  تیغ  فساں  لَا  اِلٰہَ  اِلَّا  اللہ

 

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں لَا  اِلٰہَ  اِلَّا  اللہ

 

کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا

فریب سود و زیاں‘لَا  اِلٰہَ  اِلَّا  اللہ

 

خرد ہوئی ہے زمان نہ مکاں  کی زُناری

نہ ہے زماں نہ مکاں‘لَا  اِلٰہَ  اِلَّا  اللہ

 

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں‘لَا  اِلٰہَ  اِلَّا  اللہ

 

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں‘لَا  اِلٰہَ  اِلَّا  اللہ


مرد مسلمان

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن

گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان!

 

قہاری و غفاری و قدسی و جبروت

یہ چارد عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

 

ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان

 

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!

 

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

 

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان

 

فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز

آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمٰن

 

بنتے ہیں مری کارگہ فکر میں انجم

لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان!


ستاروں سے آگے جہاں

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

 

تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں

یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں

 

قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر

چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

 

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم

مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

 

تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

 

اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

 

گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں

یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں
 

بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا

اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا

 

جس سمت میں چاہے صفَتِ سیلِ رواں چل

وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا

 

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

 

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنَر کر

کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

 

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا

 

محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص

کرتا نہیں جو صُحبتِ ساحل سے کنارا

 

دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

 

 

دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا

 

اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا

اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

 

تقدیرِ اُمَم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا

مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

 

اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے

’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!‘

علامہ اقبال کے مشہور کلام

بچے کی دعا لب پہ آتی ہے دعا بن نے تمنا   میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا   میری   دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا   ہو جائے ہ...